ہر سال محرم الحرام کی آمد پر حضرت سیدنا حسینؓ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ہر مسلمان شہادت حسین کے واقعات میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ مختلف پروگراموں اور جلسوں کے ذریعہ حضرت حسینؓ کی شہادت کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ نواسٔہ رسولؐ ، جگر گوشۂ نبی کی شہادت، اسلامی تاریخ کا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے کہ صدیوں اس کی یاد تازہ رہے گی، واقعہ کربلا کو گزرے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکے ہیں مگر اب بھی آسمان پر چاند نمودار ہوتے ہی دنیا کے بیشتر حصو ں میں اس واقعہ کی یاد کسی نہ کسی انداز میں اجتماعی یا انفرادی طور پر منائی جاتی ہے۔ محرم کا چاند جس عظیم واقعہ کی یاد دلاتا ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اوربہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن اس موضوع میں اتنی وسعت اور گہرائی ہے کہ اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس پر بہت کم لکھا گیا ہے اور ابھی بھی یہ موضوع تشنہ تکمیل ہے اور یہ کیفیت شاہد ہمیشہ رہے۔
محرم ،تلوار پر خون کی فتح و کامیابی کا مہینہ ایک مرتبہ پھر آ پہنچا اور پہلے سے کئی زیادہ شہادت، ایثار، قربانی،جہاد،طاغوتی ظلم و استعداد کے خلاف جنگ اور اس کے دین کی راہ میں فدا کاری، اللہ اور اس کی محبوب برحق سے عشق و محبت کی یادوں کو زندہ کرتا ہوا آیا۔ اور انسانیت کے لیے مشکل راہ کا کام دے گی۔ امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو رسم کی شکل دینے کی عادی ہو چکی ہے۔ شہادت حسین کا واقعہ بھی سالانہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس واقعہ کو رسمی طور پر مذاکرہ کر کے یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے نواسۂ رسولؐ سے وابستگی کا حق ادا کر دیا۔ اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت و موعظت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی حادثہ اور واقعہ سے عملی رہنمائی حاصل کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ زندہ قومیں ہمیشہ ماضی سے روشنی حاصل کرتی ہوئی مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔حضرت سیدنا حسینؓکی شہادت اور کربلا کی سرزمین پر پیش آئے واقعات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس سے بے شمار نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے عملی زندگی میں بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں اس قسم کے چند نکات کی نشاندہی اس مقصد سے کی جا رہی ہے کہ شاید ملی حمیت و غیرت رکھنے والے درد مندانِ ملت ان پہلوؤں پر غور کریں گے۔
1 عملی جدو جہد : حضرت امام عالی مقام کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے۔یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں، میں حکمران بھی ہوں، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے، ابولہبی ہے۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے۔ بیت المال میں خیانت کرنا، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے۔
آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ’’میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔
2 عزم واستقلال : مدینہ سے لے کر میدان کربلا میں امام حسین ؓ کے تنہا رہ جانے کے وقت تک ہر لمحے، ہر موڑ، ہر مرحلے پر یزید اور اس کے گماشتوں نے حسین کو متعدد بار بار پیشکش کی کہ اگر بیعت کرلیں یا ان کی مرضی کے فیصلے قبول کرلیں تو نہ صرف ان کی جان بخشی ہو سکتی ہے بلکہ انہیں اور ان کے آل و اصحاب کو مراعات بھی دی جا سکتی ہیں لیکن یزیدی حربے اور لالچ کسی بھی موڑ پر حسین کے عزم و استقلال کو ختم تو کیا ذرہ برابر بھی کم نہ کر سکے۔ وقت شہادت میدان کربلا میں بھی یزیدی فوج نے کوشش کی کہ اکیلے رہ جانے والے حسین کو موم کیا جائے اور اہل بیت رسول (ص) کی خواتین کی عصمت، بے پردگی اور قید کی دھمکی دے کر حسین کو جھکنے پر مجبور کیا جائے لیکن امام مظلوم نے کسی بھی حربے کو کامیاب نہیں ہونے دیا بلکہ سابقہ سے بھی زیادہ عزم کے ساتھ ڈٹے رہے اور منزل شہادت پر فائز ہو گئے۔ تاریخ انسانی میں حسین جیسے عزم و استقلال کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی اور شاید تاقیام قیامت عزم استقلال کا یہ مظاہرہ چشم فلک دیکھ ہی نہ پائے۔ حسینی عزم کا ایک بڑا اور بیّن ثبوت ہجری سے لے کر لمحہ موجود تک حریت اور شہادت پر مبنی تحریکیں ہیں جنہیں
اگر عزم و استقلال کا عملی سبق ملتا ہے تو وہ صرف اور صرف حسین کی ذات سے۔یہ سچ ہے کہ عزم و استقلال کے بغیر نہ کامیابی نصیب ہوتی ہے اور نہ شہادت۔ دنیا میں بہت ساری تحریکیں اور انقلاب محض اسی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں کہ ان کے رہبران اور حامیان کے اندر عزم و استقلال کا شدید فقدان تھا۔ جذبات کی رو میں بہنے والے، ذاتی اغراض کا شکار لوگ، اقتدار کے حصول میں کوشاں طبقات اور زبردستی حاکمیت کی دھونس جمانے والے گروہ کبھی بھی پائیدار اور مستقل کامیابی حاصل نہیں کرسکتے لیکن صرف وہ لوگ، وہ گروہ، وہ طبقات اور وہ افراد جو عزم حسینی اور استقلال شبیری سے نہ صرف زبانی بلکہ عملی استفادہ لیتے ہیں۔ ہمارے معاشروں میں بھی یہی المیہ چارسو موجود ہے کہ ہم ہر بہتر اور نیک کام کے لیے عزم تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن اس عزم کو استقلال کا جامہ نہیں پہنا سکتے اور یوں ہمارا ہر عزم آغاز سے ہی محض دعویٰ ثابت ہو جاتا ہے۔ عزم کو استقلال کی منزل تک پہنچانے کے لیے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کردار حسینی اور تاریخ کربلا کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر اس کے نفاذ کے لیے عملی کوششیں کرنی ہوںگی۔
3 جمہوریت کی حفاظت: واقعہ کربلا'' کو حق وباطل کے درمیان معرکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو اسلام کی ''شورائی جمہوریت ''کے تحفظ کے لئے ملوکیت یا ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لڑی گئی اس جمہوریت میں مسلمانوں کے خلیفہ یا امیر کا انتخاب عام لوگوں کے مشورے سے کیا جاتا ہے جس کا جانشینی یا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ، نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ کوئی بزعم خود یا طاقت کے زور پر خلیفہ اور امیر بن جائے اس نظام نے آج سے چودہ سو برس پہلے سماجی اونچ نیچ اور ادنیٰ واعلیٰ کے امتیاز کو مٹادیا تھا، جرم وسزا میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں تھی، غلطی خواہ امیر کرے یا کسی غریب سے سرزد ہو، شریعت کی نظر میں دونوں کی حیثیت مساوی ہے، اس اسلامی جمہوریت کے طفیل میں نسلی امتیازات اور قبائلی غرور کا خاتمہ ہوا ،ایک دوسرے کے دشمن ہمدرد بن گئے، ان کی تمام تر پسماندگی ترقی میں بدل گئی، اونٹوں کی ریوڑ لے کر ریگستانوں کی خاک چھاننے والے مسلمانوں ، ملکوں اور قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے، اس جمہوریت کی بنیاد سب سے پہلے اسلام نے رکھی جسے یزید نے ڈھانے کی کوشش کی۔اور اب ہمارے ملک میں زعفرانی سوچ وفکر والے لوگ جمہوریت کو ختم کرنے کی فکر کر رہے ہیں اور ایک یزیدی لشکر کو تیار کیا جارہا ہے،پورا ملک یزیدی قوتوں کے نرغے میں ہے۔ اس ملک کو آج پھر ایک حسین? کی تلاش ہے جو کاروان حق کو لے کر نکلے اور یزیدی قوتوں کو پاش پاش کردے تاکہ خدا کی کائنات میں امن، انصاف اور حکم ربی کا بول بالا ہو حضرت امام حسین کی میدان کربلا میں صف آرائی درحقیقت اسلام کے مزاج میں تغیروتبدل کے خلاف ایک ایسی مزاحمت تھی جو رہتی دنیا تک حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتی رہے گی آزادی ضمیر، آزادی فکر اور اختلافِ رائے کا حق آج کے جمہوری دور کا ایک امتیاز ہے جس کو چھیننے والی حکومت کبھی جمہوری قرار نہیں پاسکتی۔ حضرت امام حسین نے بھی حکومت اور اقتدار کے مطالبہ بیعت کو ٹھکرا کر رہتی دنیا تک اپنے عمل وکردار سے یہ سبق دے دیا کہ جبر کی بنیاد پر کسی سے کوئی مطالبہ وفاداری باطل ہے اور اس جبر واستبداد کا مقابلہ اس عزیمت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ 'سر کٹ جائے مگر جھکے نہیں۔
آج کے اس دور فتن میں جب ہر طرف طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں معصوم انسانوں کا خون بے دریغ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اس امر کی ضرورت ناگزیر ہے کہ آمادہ شر یزیدی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ ظالم چاہے کتنا ہی ستمگر اور ظالمانہ طاقتوں کا مالک کیوں نہ ہو ظلم کی حکمرانی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اسوہ شبیری پر عمل پیرا ہونے سے ظالم کا وقار اور دبدبہ ریت کے دیوار کی طرح زمین بوس ہوکر رہتا ہے۔آج یہ وقت کا تقاضا اور اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ شہید کربلا سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس پیغام کی معنویت و اہمیت کو ہر سطح پر اجاگر کیا جائے جو انہوں نے اپنی اور اپنے بہتّر ساتھیوں کی جانیں راہ حق میں قربان کرکے ہر دور کے اہل ایمان کو دیا۔ یہ پیغام اس ابدی حقیقت کو قلوب و اذہان میں ذہن نشین کرنے سے عبارت ہے کہ ایک حق گو مسلمان کبھی ظلم کے ساتھ مفاہمت نہیں کرسکتا۔اور ہر زمانے میں یزید پیدا ہوتے رہیں گے ان کی شخصی آمرانہ حکومت بعض اوقات جمہوریت کے لبادے میں زعفرانی فکر کو مسکط کرنا ایک چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔ اہل اسلام کے سواد اعظم کو عدل و انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے ظلم کے آگے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جانا ہوگا۔ انہیں حتی الامکان کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ملت اسلامیہ میں اسلام کی روح حقیقی معنوں میں بیدار ہوجائے۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا، معصوموں کا خون بہایا، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی، شریعت کی پیروی کی، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہوجاتا ہے۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی۔
(بصیرت فیچرس)